اس روز دھوپ کچھ دھند لائی ہوئی سی تھی اور زمین تھوڑی بے تاب، اس لیے ہوا میں خس و خاشاک کی آمیزش زیادہ تھی جس کے نقوش گاڑیوں کی ونڈ اور بیک دونوں اقسام کی سکرینوں پر واضح طور پر نظر آتے تھی۔ بس یہ منظر دیکھ کر ایک لڑکی آگے بڑھی اور اس نے ایک نئی نکور گاڑی کی سکرین پر نک سک سے درست اور انگریزی خوش خطی کے قاعدے کے عین مطابق دائیں جانب کو ذرا سی جھکی ہوئی جوائینٹ رائیٹنگ میں ایک لفظ لکھا ‘لّو’۔
اس سے پہلے کہ وہ لڑکی گرد سے اٹی ہوئی انگلی اپنے پلو سے صاف کرتے ہوئی پیچھے پلٹتی، ایک طویل قامت گورا چٹا نوجوان آس کے سامنے آگیا اور نہایت شائستگی کے ساتھ کہا: ‘بہت بری بات ہے’۔
لہجہ نرم مگر فرم، چہرہ سنجیدگی اور دکھ کے ملے جلے سے چمکتا ہوا۔ یہ جنید جمشید تھے جو جامعہ کراچی کی آرٹس لابی کے عین سامنے اپنی گاڑی کے پاس ‘مجرم’ بنے کھڑے تھے۔ اس لڑکی نے جواب میں تو کچھ نہ کہا لیکن اس کے قدم جیسے زمین میں گڑ سے گئے اور جنید جمشید کے سامنے سر جھکائے کھڑی رہی۔
جنید نے اسی شرمندہ سی کیفیت میں لب ہلائے اور کہا ‘یہ تم نے کیا کیا؟’ لڑکی پھر خاموش رہی تو جنید نے کہا: ‘تم اور یہ ساری لڑکیاں میری بہنوں کی طرح ہیں’۔
اتنا کہہ کر اپنے کلام میں اس نے وقفہ کیا پھر کہا: ‘بلکہ بہنیں ہی ہیں’۔ لڑکی کا سر کچھ اور جھک گیا اور اس کی آنکھوں کی ندی میں طوفان کے آثار نظر آنے لگے۔ یہ دیکھ کر جنید گھبرا گئے اور کہنے لگے: ‘تمھیں دُکھی کرنا میرا مقصد نہیں تھا۔۔۔’۔ اس سے پہلے کہ جنید اپنی بات مکمل کرتے، لڑکی دو قدم پیچھے ہٹی اور پھر تیزی کے ساتھ طالب علموں کے ہجوم میں غائب ہو گئی۔
‘سانولی سلونی سی محبوبہ، تیری چوڑیاں شڑنگ کر کے’ جیسا شدھ رومانی گانا گانے والے پاپ سنگر سے میرا یہ پہلا اور حیران کن تعارف تھا۔ جنید ان دنوں تنگ جینز، خوشنما شرٹیں اور ٹی شرٹیں پہنا کرتے تھے جن کا گریبان اکثر کھلا اور ان کی لمبی گردن کے دائرے میں ایک سنہری زنجیر چمکتی ہوئی نظر آتی، داڑھی مونچھ خوب رگڑ کر صاف کی ہوئی اور سرخ و سفید صحت مند جلد چمکتی ہوئی۔
اس روز بھی جنید کا لباس مختلف نہ تھا۔ وہ جامعہ کراچی کے ہفتہ طلبہ میں شرکت کے لیے آئے تھے اور لڑکیاں اسے ایک نظر دیکھنے کے لیے ٹوٹی پڑتی تھیں۔ مگر وہ حیران کن طور پر نگاہ جھکائے اپنے میزبانوں کے ہجوم میں چلتے ہوئے پنڈال کی طرف جارہے تھے۔ جلسہ گاہ میں میں نے صحافیوں کے لیے مخصوص نشست کی طرف بڑھتے ہوئے سوچا: ‘یہ کیسا راک سٹار ہے؟’
‘بناوٹ’ میرے ذہن نے ایک توجیہ تلاش کی لیکن ان کے چہرے میں جانے کیا بات تھی کہ مجھے اپنے خیال میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جنید سٹیج پر آئے تو پنڈال نے اس کا کام خود سنبھال لیا اور ہزاروں طلبہ بیک آواز گانے لگے: ‘گورے رنگ کا زمانہ، کبھی ہوگا نہ پرانا، گوری ڈر تجھے کس کا ہے، تیرا تو رنگ گورا ہے۔’
جنید نے کہا: ‘میرے بھائیو اور۔۔۔’۔ وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر پائے تھے کہ پنڈال سے کورس بلند ہوا: ‘آنکھوں کو آنکھوں نے جو سپنا دکھایا ہے، دیکھو کہیں ٹوٹ جائے نا۔’
جنید بے بس ہو کر خاموش ہو گئے لیکن کچھ دیر کے بعد مسکراتے ہوئے ایک جملہ مکمل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے اور سوال کیا ‘میری باری کب آئے گی؟’
لوگ خاموش ہوگئے تو انھوں نے کہا کہ دیکھو میں یہاں کچھ گانے نہیں آیا۔ جنید کے اس بیان پر احتجاج کی آواز ایک بار پھر بلند ہوئی: ‘اعتبار بھی آہی جائے گا، ملو تو سہی، راستہ کوئی مل ہی جائے گا، چلو تو سہی۔’
اس پر جنید نے ایک بار پھر کہا کہ ‘دیکھو میں نے تمھیں بتایا ہے کہ میں نے آپ کی دعوت قبول کی تو منتظمین سے وعدہ لیا تھا کہ طالب علموں کے درمیان میں گانا نہیں گاؤں گا’۔
جنید نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ پنڈال ایک بار خاموش ہوگیا لیکن ذرا سے وقفے کے بعد جنید کے گائے ہوئے مقبول عام ملی نغمے کے بول گونج اٹھے: ‘دل دل پاکستان۔’
جنید نے کہا ‘ہاں یہ چلے گا اور ضرور چلے گا’۔
جنید اب مطمئن ہو گئے اور جامعہ کراچی کے کونووکیشن گراؤنڈ کے وسیع پنڈال میں بیٹھے ہزاروں طلبہ نے ان کی آواز میں آواز ملا کر یہ ترانہ گایا۔
یہ پہلی بار تھی جب میں نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے اس گریجوئیٹ کو ٹیلی ویژن سکرین کے بجائے آمنے سامنے دیکھا۔
وہ کراچی میں ایم کیو ایم کی بھرپور طاقت کا زمانہ تھا جس کے سامنے کوئی سیاسی جماعت اور سماجی گروہ دم نہیں مار سکتا تھا۔ عین اسی زمانے میں ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی جس نے پاکستان میں پہلی بار ٹیلی ویژن کی غیر سرکاری نشریات کا تجربہ کیا تھا، ایک کنسرٹ کا اہتمام کیا۔ ایم کیوایم نے اس کے پنڈال پر قبضہ کرلیا اور اصرار کیا کہ وہاں موجود تمام گلوکار اس کے جھنڈے اٹھا کر پارٹی کے ترانے گائیں۔
کئی گلوکار اس دباؤ کی تاب نہ لا سکے، کنسرٹ مکمل طور پر ناکام ہو چکا تھا۔ لیکن جنید ڈٹ گئے اور وہ مسلح لوگوں کے ہجوم میں قومی پرچم بلند کرکے اپنا مقبول نغمہ ‘دل دل پاکستان’ گا کر سٹیج سے اتر گئے۔ راک سٹار نے میرے دل میں تھوڑی سی جگہ مزید بنا لی۔
جنید کی ذہنی کایا کلپ جس نے انھیں مذہب سے قریب کردیا۔ اس کی تفصیلات میرے علم میں نہیں لیکن تبلیغی جماعت میں ان کی وابستگی اس اعتبار سے اہم نہیں کہ ایک مقبول عام گلو کار شوبز کی چمک دار دنیا سے نکل کر محراب و منبر کی طرف متوجہ ہوگیا۔ بلکہ اس واقعے کی اہمیت یہ ہے کہ جنید تبلیغی جماعت جیسی جماعت میں شامل ہوئے اور اس میں بھی عین اسی طرح نئے رجحانات متعارف کرادیے جیسے انھوں نے موسیقی نئی طرح ڈالی تھی۔
جنید کا یہ کارنامہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ انھوں نے ایک ایسے مذہبی گروہ میں جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کا دروازہ کھولا جو قدامت پسندی میں اس قدر اطمینان محسوس کرتا تھا کہ نماز باجماعت کے لیے لاؤڈ سپیکر کے استعمال سے بھی گریز میں عافیت جانتا تھا۔ تبلیغی جماعت جیسے گروہ میں ٹیلی ویژن جیسے آلہ ابلاغ کو داخل کرنا اتنا بڑا کام ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس کوشش میں انھیں اس جماعت کے بزرگوں اور قدامت پسندوں کی سخت مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اپنے مزاج کے مطابق وہ اس معاملے میں ثابت قدم رہے۔ جنید کا یہ کردار انتہائی گہرے اثرات کا حامل ہوگا جس کے نتیجے میں قدامت پسند مذہبی عناصر جدت پسندوں کے درمیان فاصلوں میں کمی ہوگی اور ہمارے معاشرے میں توازن پیدا ہوگا۔
جنید کی جدت پسند طبیعت کے اثرات قدامت پرستوں پر بہت واضح نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنید نے بھی ان کا لب و لہجہ اس خوبی سے اختیار کیا کہ راک سٹار اور مولوی میں تمیز مشکل ہوگئی۔
via BBC.com