تحریر:تہمینہ راؤ
کیا بات ہے رضیہ کچھ تھکی تھکی سی لگ رہی ہو میں نے
اسٹاف روم میں میں سر پکڑے بیٹھی اپنی ساتھی ٹیچرسے پوچھا ۔وہ بہت زیادہ پریشان اور گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی رضیہ بے دلی سے بولی یار کل میری دیورانی آئی ہوئی تھی اس کے جاتے ہی سارے گھر کا نظام الٹ پلٹ ہو کر رہ گیا پہلے چھوٹا والا سیڑھیوں سے گر گیا اس پر اس کے پاپا مجھ پر برس پڑے کے میں بچوں سے لاپرواہی برتتی ہوں ،اس سب کے دوران چولھے پر رکھا کھانا جل گیا غصے میں میرے میاں بھوکے سو گئے اور مجھے اتنی تھکن محسوس ہو رہی تھی کے بچوں کو دودھ بسکٹ دے کر سلادیا صبح بھی یہ ناشتہ کیے بغیر چلے گئے ہیں جب بھی میری دیورانی گھر سے ہو کر جاتی ہے گھر کا ماحول خراب ہو جاتا ہے صبح گھرسے باہر آئی ہوں تو دروازے کے پاس الائچی پڑی ملی ہیں پچھلے ہفتے بھی جب وہ ہو کر گئی تھی بیڈ کے نیچے روٹی کے ٹکڑے ملے تھے اور میرےشوہر کا موڈ بھی سخت خراب رہنے لگا ہے
مجھے شک ہے کے میری دیورانی ضرور جادو تعویز کرتی ہے ۔ابھی اس کی بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کے ساتھ بیٹھی جیوگرافی کی ٹیچر مسز ملک نے لقمہ دیا ارے بھئی نظر اتارو اپنی ،ان رشتے داروں کی نظرِبد سے اللہ بچائے میرا تو خیال ہے نظر لگا کر گئی ہے ۔اب بولنے کی باری اسلامیات کی ٹیچر مس میمونا کی تھی کہنے لگیں تم صیح کہہ رہی ہو جادو ٹونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا
جادو حقیقت ہے قرآن میں اسی وجہ سے معوز تین کی سورتیں اتاری گئی ہیں جادو تو ایسی بری چیز ہے کے اللہ کے رسول اس سے نہیں بچ سکے ۔ اب رضیہ پہلے سی بھی زیادہ پریشان نظر آرہی تھی وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی کیوں کے اس ساری گفتگو کے دوران میں خاموش تھی میں نے اسے دلاسا دیا ایسا کچھ نہیں ہے وہم مت کرو ۔اچھا تو مس میمونا اور مسز ملک غلط کہی رہی ہیں؟ میں تینوں خواتین کے چہرے پر ناگوری کے تاثرات دیکھ چکی تھی میں نے کہا یہ ایک اہم موضع ہے اس پر ہم فرصت سے بات کریں گے میری خیال میں لنچ بریک مناسب رہے گا وقت طے کر کے ہم اپنی اپنی کلاس میں آگئے۔ وقتِ مقررہ پر ہم اسٹاف روم میں اکھٹے ہو گئے اب بولنے کی باری میری تھی
دیکھو یہ مسئلہ اب ہر دوسرے گھر کا ہے اس جادو اور سفلی عمل ،تعویز و نظرِ بد کے خوف نے معاشرے میں اس قدر سختی سے پنجے گاڑ لیے ہیں کے یہ ایک نفسیاتی بیماری بن گئی ہے سب سے پہلے میں نظرِ بد کی طرف آتی ہوں
جو جتنا ایمان والا ہے ،جو جتنا نماز روزہ کا پابند ہے ، جوجتنے زیادہ درسِ حدیث سنتا ھے وہ اُتنا ہی زیادہ تہم پرست ، بات بات پہ ڈرنے والا، فیڈر چھپا چھپا کے دودھ پلانے والا، بچے کو سرمے کا مصنوعی تل بنا کر نظر سے محفوظ کرنے والا بن جاتاہے ـ آخر رسول اللہ ﷺ کی امت ہی کیوں نظرِ بد کا شکار ہو ؟ کیا یہ امت لاوارث ہے ؟ اس کا کوئی خدا نہیں ؟ ہے تو کیا اس کا خدا کمزور ہے اپنے بندوں کی حفاظت نہیں کر سکتا اور دیگر امتیں اور کافر فاسق سارے نظرِ بد سے محفوظ ہیں ؟ محدثین میں سے کتنے نظرِ بد سے مرے ہیں ؟ یا وہ سارے ہی لولے لنگڑے اندھے ،بہرے تھے کہ جن کو نظر نہیں لگ سکتی تھی
، سوال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کتنے لوگ نظرِ بد سے مرے تھے ؟ کیا وہ رسول اللہ ﷺ کے امتی نہیں تھے بس ہم فاسق و فاجر ہی پکے ٹھکے امتی ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ کی ۲۳ سالہ نبوی حیات اور ایک لاکھ چوالیس ھزار صحابہ میں سے بس ایک صحابی بیمار ہوئے تھے جس کی بنیاد پر یہ نظرِ بد کا پورا تانا بانا بُنا گیا ہے اور امت کو یہود والی توہم پرستی میں مبتلا کر دیا گیا ہے ـ اللہ پاک نے جن توھمات سے مومن کی جان چھڑانے کے لئے قرآن میں سورتوں پر سورتیں نازل فرمائیں ،قرآن کی اللہ پر توکل کی وہ ساری آیات نیز نبئ کریم ﷺ کے اقوال کا وہ سارا ذخیرہ جس میں بتایا گیا ھے کہ ساری دنیا کے پہلے والے اور بعد والے جن و انس اور آسمان کے فرشتے سب ایک ہو کر تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو ہر گز نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے کہ جو رحمِ مادر میں تیرے لئے لکھ دیا گیا ہے ؛ اور اگر پہلے اور پچھلے ،جن و انس اور فرشتے سب مل کر تجھے نفع دینا چاہئیں تو رائی کے دانے برابر نفع نہیں دے سکتے سوائے اس کے کہ جو اللہ نے رحم مادر میں تیرے لئے لکھ دیا ہے قلم اٹھا لیا گیا ہے اور سیاہی خشک ہو گئ ہے ،، ما یفتح اللہ للناسِ من رحمۃٍ فلا ممسک لھا وما یمسک فلا مرسل لہ من بعدہ ؛؛ اللہ جو نعمت اپنے بندوں پر کھول دے اس کی بندش کوئی نہیں کر سکتا اور جس کو روک لے اس کو کوئی کھول نہیں سکتا ،، اس قسم کی آیات سے قرآن بھرا پڑا ہے مگر ایمان کی ہوا نکالنے والی اور مومن کا وضو توڑ کر بزدل بنانے والی کہانیاں بھی صحیح کتابوں میں درج ہیں ، واللہ یہودیوں نے ٹھیک نشانے پر تیر مارا ہے ،، رسول اللہ ﷺ نے اسی کی پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک دن تم یہودیوں کی اصل سے بہتر نقل بن جاؤ گے ،، واقعی ہم ایسے ہی بن گئے ہیں ،، دوسری بات جیسے کہ مس میمونا نے کہا کے جادو برحق ہے اور رسولِ خدا پر بھی ہوا اور ان کے لیےمعوز تین سورت اتریں اس بارے میں یہ کہوں گی
سورہ الفلق اور سورہ الناس جن کو جوڑ کر معوذتین کہا جاتا ھے،،یعنی وہ دو سورتیں جن میں مختلف خطرات سے اللہ کی پناہ حاصل کی جاتی ھے، یہ سورتیں ابتدائی مکی دور میں 20 ویں اور 21 ویں نمبر پر نازل ھوئیں جب کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس مختلف قسم کے سماجی ،اخلاقی، اور گروھی دباؤ کا سامنا کر رھی تھی،نبی کریم ﷺ کے خلاف ھر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رھا تھا، رات کے اندھیرے میں اگر آپ کے خلاف گٹھ جوڑ ھوتے تھے تو دن کی روشنی میں حرمِ مکی کے زائرین تک رسائی حاصل کر کے ان کے کانوں میں نبی ﷺکے خلاف زھر انڈیلا جاتا،ان سب کو مدنظر رکھتے ھوئے اللہ پاک نے ان میں سے ھر ھر فتنے کا نام لے کر اپنے نبیﷺ کو اپنی پناہ کی یقین دھانی کروا دی ، کہ آپ ان الفاظ سے ھماری پناہ طلب کر کے بے فکر ھو جائیے،ھم جانیں اور آپ کے دشمن جانیں،، ان سورتوں کے نزول کے ساتھ ھی نبی ﷺ نے ان کی تلاوت اور ورد کو معمول بنا لیا اور سوتے وقت بھی ان آیات کو پڑھ کر اپنے ھاتھوں پر پھونکتے اور پھر پورے بدن اطہر پر پھیر کر حصار بنا لیتے، آپ نے ساری زندگی اس کو اپنا معمول بنائے رکھا تا آنکہ مرض الموت میں جب کہ آپ کی ھمت جواب دے گئی تو سیدہ کائنات ام المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ ؓ آپ کے دست مبارک کو سہارہ دے کر آپ کے چہرہ اقدس کے قریب کرتیں، جب آپ ان سورتوں کو پڑھ کر پھونک مار لیتے تو ام المومنینؓ نبی کے ھاتھوں کو ان کے بدن پر پھیر دیتیں،
ظاھر ھے جب اللہ پاک نے قل کے حکم کے ساتھ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا اور آپ نے عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ آج مجھ پر ایسی آیات نازل ھوئی ھیں جیسی قرآن میں آج تک نازل نہیں ھوئی تھیں، تو آپ نے انہیں بطور ورد کے اختیار فرمایا،، ان آیات میں صرف ایک آیت ” و من شر النفثاتِ فی العقد” کو لے کر انہیں جادو کی دلیل بنا دیا گیا ھے کہ اگر جادو نہیں ھوا تھا تو پھر گرھوں میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کیوں مانگی گئی ھے؟
اب سب سے پہلے غور کرنے کی بات یہ ھے کہ یہ حکم کہ” قل اعوذُ برب الفلق” تو مکے کے ابتدائی مشکل دور میں نازل ھوا، نبی نے بحیثیتِ “نبی “اللہ کے حکم کی پیروی شروع کر دی جو کہ آپ کا فرضِ منصبی تھا، پھر اس کے باوجود اگر 12 یا 15 سال کے بعد مدینے میں آپﷺ پر جادو ھو گیا اور یہ سورتیں اللہ کے وعدے کے مطابق آپ پر جادو ھونے کو نہ روک سکیں تو اب یہ جادو کا علاج کیا اور کیسے کریں گی؟؟
یہ سوال ھمارے ذھن میں پیدا کیوں نہیں ھوتا کہ جب اتنے عرصے کا ورد نبی ﷺ کی حفاظت نہیں کر سکا اور عین وقت پر جواب دے گیا،،تو اب نبی ﷺکو یہ کہنا کہ ” قل اعوذُ برب الفلق’ کوئی عقل و فہم میں آنے والی بات ھے،یا کوئی یہ ثابت کرنا چاھتا ھے کہ نبیﷺ نے ان سورتوں کا ورد کبھی نہیں کیا تھا،بلکہ ان کو رکھ کر بھول گئے تھے اور فرشتے نے آ کر یاد دلایا کہ معوذتین نام کی دو سورتیں بھی 15 سال پہلے نازل کی گئی تھیں،،ساری مصیبت ھمارے جادوئی ماحول کی پیدا کردہ ھے، راویوں کے زمانے میں بھی جو جو طریقہ جادو کا مروج تھا وہ سارا انہوں نے قسطوں میں نبیﷺ پر جادو والی حدیث میں ڈالا،، بخاری میں چند لائنیں ھیں، اور پتلے اور سوئیوں کا کوئی ذکر نہیں،مگر بعد والوں نے” خالی جگہ پُر کرو” کا کام خوب کیا، اور ایک پتلا انہوں نے نبی کا بنوایا،، شکر ھے عربوں میں دال ماش کا رواج نہیں تھا ورنہ وہ ماش کی دال کا پتلا بناتے،، پھر اس میں سوئیاں چبوتے ھیں، پھر سوئیاں نکالتے وقت نبی ﷺکے چہرہ اقدس کے تآثرات بھی نوٹ کرتے ھیں کہ آپ سوئی نکلنے پر تکلیف کا اظہار کرتے ،پھر راحت محسوس کرتے !
الغرض الفاظ بھی بڑے ظالم ھوتے ھیں،، پتھر اور مٹی کی دیواروں کو پھلانگا جا سکتا ھے ان میں نقب بھی لگائی جا سکتی ھے مگر الفاظ کی اسیری سے رھائی ناممکن ھے کیونکہ الفاظ کی دیواریں انسان کے اندر ھوتی ھیں، اور نادیدہ ھوتی ھیں،،
صرف اس ایک لفظ نفاثات ،، یعنی پھونکوں نے کس طرح لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ھے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ھے، پتھر کی دیواروں کے پیچھے اسیری غنیمت ھے کہ اس اسیری میں بڑی بڑی انمول تفسیروں اور تحریروں نے جنم لیا ھے،ابن تیمیہ کی جیل کی تحریریں،، سید قطب کی جیل کی تفسیر، مودودی صاحب کی تفھیم کی تکمیل، اور امام سرخسی کی اندھے کنوئیں میں سے اپنے شاگردوں کو ڈکٹیٹ کروائی گئی وہ تفسیر جو دو بیل گاڑیوں پر لاد کر لائی گئی،،مگر الفاظ کی اسیری انسانی صلاحیتوں کو بانجھ بنا دیتی ھے،، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ھیں،
، ھمارے اسلاف الفاظ کا کیا ترجمہ کیا کرتے تھے، اس صورتحال میں کہ جب مختلف جماعتوں نے اپنے اپنے کام بانٹے ھوئے تھے،کچھ حاجیوں کو گھیرتے اور نبی کی ذات کے بارے میں ان کے کان میں پھونکتے، کچھ تجارتی قافلوں کو نشانہ بناتے اور ان میں گھوم پھر کر اپنے جوھر دکھاتے، کچھ اردگرد کی بستیوں میں چلے جاتے، پھر واپس آنے والے حرم میں بیٹھ کر رات کے اندھیروں میں اپنی اپنی کار گزاری سناتے اور ان کے” گرو” ان میں کمی بیشی کی نشاندھی کر کے کل کے لئے نئے اھداف مقرر کرتے اور لائحہ عمل تیار کرتے، اس پس منظر میں ان سورتوں کا نزول ھوا ،، یہ وھی پھونکیں ھیں جن کے بارے میں اللہ پاک نے پہلے سورہ الصف اور پھر سورہ توبہ میں ذکر فرمایا ھے،یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواھھم، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون،،، اور یریدون ان یطفئوا نور اللہ بافواھھم، و یابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون،، یہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں کے زور سے بجھانا چاھتے اور اللہ اپنے نور کی تکمیل سے کم کسی بات پر راضی نہیں ھے،، اگرچہ یہ کافرون کو کتنا بھی ناپسند ھو، یہ وھی پھونکیں ھیں جب کہ اقبال نے کہا ھے “
نور خدا ھے کفر کی حرکت پہ خندہ زن – – – پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا !
یہ وہ پروپیگنڈے کی پھونکیں ھیں جن کو جادوگرنیوں کی پھونکیں بنا کر پھر جادو کی دیو مالا تیار ھوئی ھے !
اب ترجموں میں نگاہ ڈال لیں،یہ ان اسلاف اور علماء کا ترجمہ ھے جو جادو کی حقیقت سے انکار کرتے ھیں،لہذا وہ گرھوں میں پھونکیں مارنے والی جادوگرنیوں کی بجائے کانوں مین پھونکیں مارنے والی جماعتیں مراد لیتے ھیں
اب ما تتلوا الشیاطین ،، اور النفاثات سے یہ استدلال کرنا کہ چند شیطانی کلمات ِ خبیثہ سے کوئی جادوگر مافوق الفطرت کام یا خلاف عادت کرشمہ سر انجام دے سکتا ھے نیز کسی کو نفع یا نقصان دے سکتا ھے تو یہ ایک باطل اور قرآن و سنت کی تمام تعلیمات کے خلاف عقیدہ ھے اور قرآن و سنت پر مبنی عقیدے کے خلاف کسی بھی روایت کو قبول کرنا سارے سرمایہ دین اور متاعِ ایمان سے ھاتھ دھونا ھے، دنیا میں کوئی ایسا علم اپنا وجود نہیں رکھتا جس میں مجرد چند الفاظ کو لکھ کر کہیں دبا کر کسی کو مافوق الفطرت طریقے سے نفع یا نقصان پہنچایا جا سکے، اگر یہ طاقت دنیا میں جاری و ساری کرنی ھوتی تو اللہ پاک اپنے کلام سے یہ کام لیتا ،،جیسا کہ اس نے خود سورہ الرعد میں ارشاد فرمایا ھے” ولو انَۜ قرآناً سیرت بہ الجبالُ او قطعت بہ الارضَ او کلم بہ الموتی ،بل للہ الامرُ جمیعاً (الرعد 31 ) اور اگر کوئی ایسا کلام ھوتا جس سے پہاڑ چلائے جا سکتے ،یا زمین پھاڑی جا سکتی( یا فاصلے جھٹ پٹ طے کیئے جا سکتے) یا جس کے ذریعے مردے سے کلام کیا جا سکتا تو وہ یہی قرآن ھوتا،،مگر اللہ نے یہ سارے کام اپنے ھاتھ میں رکھے ھیں،،
تو جب اللہ نے اپنے کلام میں یہ تاثیر نہیں رکھی بلکہ نبیوں سلام اللہ علیھم اجمعین سمیت تمام لوگوں کو اپنے در کا غلام اور سوالی رکھا ھے تو لبید ابن اعصم نام کے کافر یہودی کے کلام میں یہ تاثیر مان لینا کہ وہ تین میل دور ایک کنوئیں سے اللہ کے محبوب، ،صاحب معراج ﷺ کے دل و دماغ کو کنٹرول کر رھا تھا،، لبید کافر کو اللہ سے بالاتر اور اس کے کلام کو اللہ کے کلام سے زیادہ پر تاثیراور طاقتور ماننا ھے ( معاذ اللہ،) (ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ، انک انت الوھاب)
اب دیکھئے اس سورت الفلق میں ساری مخلوق کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،نہ کہ خود مخلوق سے،، اور رات کے اندھیرے کے شر سے پناہ مانگی جب وہ چھا جائے،اب نہ تو رات بذات خود کوئی نقصان دہ چیز ھے بلکہ اللہ نے اسے اپنی نشانی گردانا ھے اور نہ اندھیرے میں کوئی نفع نقصان کی صلاحیت ھے،، بلکہ اندھیرے میں حشرات الارض نکل آتے ھیں سانپ بچھو اور درندے وغیرہ جو انسان کے فطری دشمن ھیں ان کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،، نیز رات کی سیاھی کو پردے کے طور پر استعمال کر کے کچھ لوگوں کی سر گوشیوں یعنی منصوبہ بندیوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،، اب گرھوں میں پھونکیں مارنی والییوں کے شر سے پناہ مانگنا ،، نہ تو کسی گرہ میں کوئی شر یا خیر ھوتی ھے اور نہ ھی کسی پھونک میں کوئی خیر اور شر ھوتی ھے،، اصل چیز جو خیر اور شر ھے وہ ان منصوبہ بندیوں اور سرگوشیوں کے مقصد میں ھے ،نبی کریم ﷺ بھی رات کی تاریکی میں ھی دارِ ارقم میں ساتھیوں کے ساتھ ملا کرتے تھے،، یہ خیر کی سرگوشیاں اور خیر کا اجتماع ھوتا تھا،،
اسی طرح حسد کرنے والے کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے جب وہ حسد میٹیریلائز کرے حسد کو عمل میں لا کر کوئی وار کرے،،اس وار سے پناہ مانگی گئی ھے،،صرف حسد دل میں رکھنا کسی دوسرے کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ خود صاحبِ حسد کے لئے نقصان دہ ھے، ذرا ” اذا حسد ” کی اصطلاح پرغور کریں کیونکہ بنو امیہ میں ابوجہل اور ولید ابن مغیرہ مکمل طور پر حسد کی وجہ حضورﷺ کی رسالت کو نہیں مان رھے تھے کہ اس طرح بنو ھاشم کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی یہانتک کہ آخر کار نبی پاکﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے ،،آگے چل کے یہود مدینہ اسی بیماری کا شکار ھوئے کہ نبی کو اولاد کی طرح پہچانتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول ھیں،مگر اس حسد میں مبتلا ھوگئے کہ بنو اسماعیل کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی اور نبی ﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے مگر دونوں گروہ اللہ کے وعدے کے مطابق آپ کے بارے میں اپنے مذموم ارادوں میں ناکام ھو گئے پھر لبیداعصم آپ پر جادو کرنے میں کیسے کامیاب ھو گیا ؟ سورہ فلق میں تو عقد میں پھونکیں مارنی والیاں ذکر ھیں مگر لبید بن اعصم تو مرد تھا؟
کیا جادو صرف عورتوں سے ھی ھوتا ھے، یہ جادو ھے یا بچہ جو صرف دائیاں پیدا کرتی ھیں ؟ عربوں کی اصطلاحات کو قرآن حکیم نے استعمال فرمایا ھے ،مثلاً حمالۃ الحطب،، لکڑیاں اٹھائے پھرنے والی، یہ ابولہب کی بیوی کی ھجو ھے،کیونکہ یہ اصطلاح چغل خور کے لئے استعمال ھوتی تھی کہ اس کو آگ لگانے کے لئے کسی سے لکڑی مانگنے کی ضرورت نہیں ھوتی، اپنی لکڑیاں خود ساتھ اٹھائے پھرتا ھے،جہاں چاھتا ھے جب چاھتا ھے آگ لگا دیتا ھے،، تو اس کو لکڑیاں اٹھانے والی کہا گیا یعنی چغل خور، اسی طرح عقدہ میں گرہ لگانے کی اصطلاح بھی استعمال ھوتی تھی جیسے ھمارے یہاں مکار عورت کے لئے آسمان ٹاکی لگانے کی اصطلاح استعمال ھوتی ھے، گرہ یا عقدہ اورعقیدہ تو وہ ھوتا ھے کہ جو غیر متحرک ھوتا ھے،ادھر ادھر نہیں ھوتا-
جس گرہ کو ڈھیلا رکھنا مقصود ھوتا تھا،عرب اس میں کوئی چیز پھنسا دیتے تھے،مثلاً کوئی چھوٹا سا ڈنڈہ ٹائپ چیز،، ان جماعتوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ڈنڈے کی جگہ اپنی پھونکیں یعنی اپنے وسوسے استعمال کرتی ھیں عقائد کو ادھر اُدھر کرنے کے لئے،اور یہ بات ھر وہ شخص جانتا ھے جس نے اسلام کے ابتدائی دور میں نبیﷺ کا عکاظ کے میلے میں جانا اور ابولہب کا حضورﷺ کے پیچھے پیچھے رھنا جہاں آپ بات شروع کرتے ابو لہب کہتا کہ میں اس کا تایا ھوں، اس کا دماغ خراب ھو گیا ھے، اس کی بات کا برا نہ منانا اور ساتھ ھی کنکریوں کی مٹھی بھر کر اپ پر پھینکتا کہ محمد گھر چلو،اس پر نئے لوگ ٹھٹھک جاتے، تائے کا معزز حلیہ اور آپ ﷺکا خاموش ھو جانا، دیکھ کر وہ آگے چل دیتے،، اسکی پلاننگ رات کو حرم میں ھی کی جاتی تھی کہ کل میلہ ھے اور کس نے کیا کردار کیسے ادا کرنا ھے،، ابولہب کی تصدیق کے لئے کچھ لوگ بھی ساتھ ساتھ چلتے رھتے تھے ـ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جیسے ہی ہمارے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے ہم منفی سوچنا شروع ہو جاتے ہیں یہ منفی سوچ ہی ہمارے لیے سفلی عمل کا کام کرتی ہے کوئی بھی چیز نقصان میں چلی جائے ہم اللہ کی مرضی کے بجائے جنات بھوت پریت سفلی عمل یا نظرے بد بتاتے ہیں یہی اصلی جادو ہے شیطان یہی ہم سے چاہتا ہے کہ ہم حاکمیتِ پروردگار کو تقسیم کردیں اللہ کے بتائے ہوئے کاموں پر عمل کرنے کی جگہ اپنی غلطیوں کو اور غلط سوچ کاسفلی عمل کو ذمہ دار سمجھیں
وہ ساری قوتیں جو خدا کی ہی وہ ہم جادو تعویز والوں کو دے دےدیں گے تو ہمارا ایمان خدا پر تو نہ ہوا شیطانی قوتوں پر ہوا اس منفی سوچ کو صرف اس یقین کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے کہ جب بھی اس قسم کا خیال زہن میں آئے یا کوئی ڈالنے کی کوشش کرے تو ایک جملہ کہہ دینا کافی ہے کہ
آمَنْتُ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ یعنی میں تمہاری باتوں پر یقین نہیں رکھتا میں تو اللہ اور رسول پر ایمان لایا ہوں ۔
میں اپنی بات ململ کر چکی تھی اب میں نے غور سے رضیہ کے چہرے کی طرف دیکھا وہ بہت مطمعن اور پر سکون نظر آرہی تھی دفعتاً اس کا فون بجنا شروع ہوا اس نے گھبرا کر کہا میرے میاں کا فون ہے اور وہ ایک طرف ہو کر شوہر سے بات کرنے لگی میں اس کی آواز نہیں سن سکتی تھی مگر اس کے چہرے کے تاثرات بخوبی دیکھے جا سکتے تھے لمحہ لمحہ اس کی گھبرا ہٹ شرمگین مسکراہٹ کی جگہ لیتی جا رہی تھی میں اس یقین کے ساتھ اگلا پیریڈ لینےاُٹھ کھڑی ہوئی کے کالے جادو کا اثر ٹوٹ چکا تھا ۔