ہمارے عزیز از جان بھائی سید مہدی محمد رضا رضوی یکم صفر 1438 ہجری کو ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔اور ہم سب بہنوں، اپنی اہلیہ اور بچوں کے لیے ایسا خلاء چھوڑ گئے جس کا بھرنا ممکن ہی نہیں۔ موت یقیناً برحق ہے، مشیعت ایزدی کے سامنے کبھی کس کا بس چلا۔
مہدی رضا ہمارے اکلوتے بھائی تھے، جو کئی بہنوں کے بعد ایک تحفے کی صورت میں ہماری زندگیوں میں آئے۔ ہم سب انھیں پیار میں کوکو کہتے تھے۔ پانچ بہنوں کے بعد بیٹے کی خواہش میں ہماری والد محترم ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خاص طور سے ایران میں امام رضا علیہ اسلام کے روضے پر دعا اور منت مان کر آئے تھے۔ اور بیشک اللہ جب چاہتا ہے اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے۔ پروردگار ایزدی کی بارگاہ میں ہمارے والدین کی دعا نے شرف قبولیت حاصل کیا۔ اور پندرہ شعبان ہجری 1377کو مہدی رضا متولد ہوئے۔
ہمارے گھر میں تو جیسے بہار سی آگئی۔ مگر اس تمامتر محبت و توجہ کے باوجود کوکو اپنے والد اورکئی بہنوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈاکٹر بنے۔ یہ گھر کی تربیت کا اثر تھا کہ کوکو نہ صرف دنیاوی تعلیم بلکہ دینی امور میں بھی بہت سرگرم رہے۔ انھوں نے فیصل آباد میں امام بارگاہ ’ بوستان زہرہ‘ کی تعمیر نو کروائی۔ اور تمام تر پیشہ وارانہ اور خاندانی مصروفیات کے باوجود آخری وقت تک امام بارگاہ کے انتظام اور انصرام بخوبی نبھاتے رہے۔ مہدی رضا خود سوز و سلام بھی پڑھتے تھے۔
مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کیا لکھوں، میرے ذہن میں جیسے گزرے وقت کی ایک فلم سے چل رہی ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ مہدی رضا کیونکہ پندرہ شعبان کو پیدا ہوئے جو امام مہدی آخر الزماں کا یوم پیدائش ہے۔ اسی مناسب سے میرے والد نے ان کی پیدائش پر ایک قطعہ لکھا تھا۔
’آج شب بارات ہے۔ ولایت کی تیری رات ہے۔
رضوی کے گھر تو آگیا۔ یہ خالق کی کرامات ہے۔‘
مہدی رضا نہ صرف ایک اچھے ڈاکٹر تھے، بے حد ملنسار اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ انھوں نے سب رشتے بہت محبت سے نبھائے۔ ہم سب بہنوں، اپنی شریک زندگی ڈاکٹر زاہدہ اور تینوں بیٹوں کی چاہتوں کا مرکز تو تھے ہی، اپنی محبت اور ملنسار طبعیت کی وجہ سے دوستوں، احباب اور رشتے داروں میں بھی بہت مقبول تھے۔
میرے چھوٹے، پیارے بھائی کوکو اب سوچتی ہوں تمھیں جلدی جانا تھا بس اسی لیے تو اتنی محبتیں سمیٹتے رہے، اور ایک مختصر علالت کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ بس کیا کہوں کوکو الفاظ نہیں مل رہے۔ ایسے موقعوں کے لیے ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا ہے۔
بچھڑا کچھ ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا۔
The article originaly published in Aalimi Khabir