ہندوستان میں فلموں کی روایت پارسی تھیٹر اور اس سے قبل سنسکرت ڈراموں سے رہی ہے ۔ لیکن فلموں کی دنیا میں جو انقلاب آیا وہ فلم’ عالم آرا‘ کی آمد ہے۔ کیونکہ اس کے بعد فلموں کو قوت گویائی حاصل ہوگئی۔ اب چہروں کی لکیروں سے خوشیوں اور غم کے تاثرات پڑھنے کی بجائے زبان سے ان کا اظہار ہونے لگا۔ زمین پر چلتی پھرتی زندگی فلم کے پردے پر نظر آنے لگی۔ چنانچہکو جب یہ فلم میجسٹک تھیٹر میں پیش کی گئی تو ہندوستانی فلموں نے ایک نیا رخ لیا۔ ”اس وقت بھارت میں اردو زبان کا بول بالا تھااور فلم کے پوسٹر پر چونکانے والے جملے لکھے گئے تھے۔ مثلا: ”اٹھتر مردہ انسان زندہ ہوگئے ہیں انہیں بولتے دیکھو“۔ اس انداز نے لوگوں کی بھیڑ اکٹھا کردی،پولیس کے لیے اس بھیڑ پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔اس فلم کے ٹکٹ بھی بلیک ہوئے۔“ (دیکی پیڈیا ’اردو‘ )
اسی میں یہ مشہور نغمہ بھی تھا:
آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ یہودی کی لڑکی پر بعد میں بمل رائے نے یہودی نام سے فلم بنائی۔اس میں دلیپ کمار نے ایک رومن شہزادے کا اور مینا کماری نے یہودی کی لڑکی کا کردار ادا کیا تھا۔وجاہت مرزا کے لکھے ہوئے ڈائیلاگ کو سہراب مودی کی ماہرانہ ادائیگی نے چار چاند لگادیا جو کافی مقبول ہوئے ۔ جیسے :
