بانوقدسیہ کے انتقال پر رنج بھی اور ان سے معذرت بھی
ہر دور میں آمروں اور اشرافیہ کو ابن الوقت قسم کے لکھاریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ فنکار کا کام کیفیات کو بیانیہ دینا ہوتا ہے اور ان فطرتاﹰ جاہل الطبع آمرانہ سوچوں اور انسانوں کو غلام بنانے والے اذہان کو ایسے قلم کاروں کی ضرورت ہوتی ہے، جو یہ فریضہ انجام دے سکیں۔
انسانی تاریخ کے تقریباﹰ سبھی ادوار میں ایسے قلم کار بہتات سے موجود رہے ہیں اور اسی تسلسل کی ایک نسبت پاکستان میں بھی مارشل لا کے ادوار اور جمہوری آمریتوں کے زمانوں میں دکھائی دی۔
حاکمِ وقت نے جب جیسا زہر ادبی قلاقند میں ملا کر لوگوں کی روحوں کو آلودہ کرنے کے لیے مانگا، ان قلم کاروں نے فوراﹰ زبانوں کے مرقع سے وہ زہر مہیا کر دیا۔
اردو ادب میں ان آمریت پرور لوگوں کے نام یکے بعد دیگرے دکھائی دیتے رہے اور بے حسی کی بات یہ ہے کہ یہ آمریت زدہ افراد ادبی طور پر ایسے مقدس ہو گئے کہ ان پر تنقید تک کی گنجائش نہ رہی۔ اگر کسی نے زبان کھولی، تو زہر یافتہ ادبی شائقین اس تنقید پر ٹوٹ پڑے۔
تاریخ کو مسخ کر کے اپنی مرضی کے جذبات سے مرصع جملوں کی ضرورت آمروں کو تھی، تو نسیم حجازی اور طارق اسماعیل ساگر جیسے جاہل مؤرخ بن گئے اور وردیوں اور بوٹوں والوں کی درندگی کو جائز قرار دینے کے لیے مظلوموں ہی کو ظالم بنا کر پیش کر دیا۔ اس سے بڑی لسانی اور ادبی بددیانتی کیا ہو سکتی ہے کہ وہ قلم جسے سچ کا ساتھ دینا تھا، وہ مکار اور جابر حکمرانوں کے سیاہ کارناموں کو درست قرار دلاونے کے لیے مظلوموں کے زخم ہی مسخ کر گیا۔
بنگال میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں پر رائفل بردار عسکری ٹوٹ پڑے، تو اپنے دور کا سچ لکھنے کی بجائے، ان لکھاریوں نے تاریخ اور مظلوم دونوں کا حلیہ بگاڑ دیا۔ بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں پر ظلم کی داستان ہمیشہ ’ناقابل بیان‘ ہی رہی اور ملک بھر کے دیگر حصوں میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی آہیں بھی اسی ’ادب‘ کی نذر ہو گئیں۔ بس راجہ گدھ منڈلاتے رہے۔
ادب نظریات کو انسانی رویوں اور فطرت و جبلت کے انطباق سے محسوس کرنے کا نام تھا، مگر اشفاق احمد، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب جیسے قلم کاروں نے نظریات کے عمومی برش سے پیچیدہ انسانی نفسیات اور انفرادی رویوں کو اجتماعی لباس پہنا دیا۔
انسانی نفسیات کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہےکہ ہر فرد بے انتہا مختلف ہے۔ ایک ہی جینوم سے جڑے ایک ہی گھر کے تمام افراد مختلف رویوں اور برتاؤ کے حامل ہو سکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں، مگر مذکورہ لکھاریوں نے تمام مرد اور تمام عورتوں جیسے ایک ایسی عمومی اور نظریات کے مربع سے خودساختہ اخلاقی اقدار کا پرچار کیا کہ نظریات فطرت سے ماورا کر دیے۔
فطرت ماں ہے اور اس روئے زمین پر موجود ہر ذی روح کی موجب ہے، مگر پاکستان میں موجود ادب اسے بالکل ہی مختلف رنگ دے کر انسانوں سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھینے میں مصروف رہا۔ پاکستان میں فطرت بھی شاید نظریے کی پیدا کردہ ہے کیوں کہ نظریہ ماورا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس ادب کو پڑھنے والے نہ صرف جذباتی رنگوں میں اپنی عمر گنوا دیتے ہیں بلکہ سوچنے سمجھنے کی اس بنیادی خصوصیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جو انسانوں اور دیگر جانوروں کے درمیان فرق کا واحد ذریعہ ہے۔
تحقیق، سوالات اور ہر روز ایک نئے خیالیے کی دنیا میں زاویہ کو زندگی گزارنے کا طریقہ اور راجہ گدھ کو مقدس ادب سمجھنا خود اسی کا عکاس ہے۔
بانو قدسیہ ایک عمدہ لکھاری تھیں مگر بہ طور قاری میں ان سے یہ سوال ضرور کرتا رہوں گا کہ وہ راجہ گدھ جیسے مردہ ادبی فن پارے کے ذریعے آخر کس منصب سے انسانی اخلاقیات کا تعین کر رہی تھیں؟
ان کے انتقال پر میرا ملال اور رنج تاہم اپنی جگہ ہے۔ میں نے راجہ گدھ پڑھ کر زیادہ لطف اس لیے لیا تھا، کیوں کہ میں سوچتا تھا اور اس ناول کی سوچنے چھین کر ’مقصدیت‘ اور نظریاتی اخلاقیات دینے کی کوشش ایک طرف میں اس ناول کے کئی مقامات پر ٹھہر کر اس کے جملوں میں پوشیدہ جالوں کو توڑتا رہا۔ میں نے خود اس ناول کو سوالات اٹھانے کی عمر سے قبل اور سوالات اٹھانے کی عمر کے بعد دو مرتبہ پڑھا، پہلی مرتبہ اس ناول نے میرے دل و دماغ پر جالے بنے، مگر دوسری مرتبہ میرے سوالات کے پوروں سے یہ اڑتی دھول ایک لمحہ بھر دھند پیدا نہ کر سکی۔
(عاطف توقیر)