پارہ چنار میں دوہرے بم دھماکے میں درجنوں ہلاکتیں اور پھر وہاں مقامی آبادی کا یہ مطالبہ کہ انہیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔ میں اس سے قبل اپنے کئی بلاگز میں ضمناﹰ اس واقعے کی مذمت بھی کر چکا اور ذکر بھی۔ مگر آج چند نہایت تکلیف دہ پیغامات میری نگاہ سے گزرے جو پارہ چنار کے ایک رہائشی کی جانب سے مجھے ارسال کیے گئے تھے۔ جن میں کہا گیا تھا کہ عاطف بھائی پارہ چنار کے واقعے پر پورا میڈیا خاموش ہے اور دکھ کی بات ہے کہ آپ بھی کچھ بولنے سے قاصر رہے ہیں۔ ’’آپ خود شیعہ نہیں ہیں شاید اسی لیے آپ ہماری آواز بننے سے اجتناب برت رہے ہیں۔‘‘
یہ جملہ میرے لیے کس حد تک دکھ کا باعث ہے۔ ہمارے ہاں ریت سی بن چکی ہے کہ کسی کا دکھ بانٹنے کے لیے بھی اس سے کوئی مسلکی، فقہی، نسلی، لسانی یا ثقافتی تعلق ضروری ہے۔ ہمیں صرف اور صرف انسانیت کے ناطے ایک دوسرے کا دکھ جاننے تک کا شعور نہیں۔
جی درست کہا! میں شیعہ مسلک سے تعلق نہیں رکھتا مگر مرنے والے میرے بھائی تھے۔ جی میں احمدی نہیں ہوں، مگر مرنے والا ہر احمدی بھی میری ہی دھرتی کا بیٹا ہے اور میرا بھائی ہے۔ جی میں مسیحی نہیں ہوں مگر ہر فرزند تثلیث میری ہی ماں کا جنا ہے، جی بالکل درست میں ہندو نہیں ہوں مگر میری زمیں سے اگنے والا اور برمّا، وشنو اور شِو کا ماننے والا میرے ہی وجود کا حصہ ہے۔ جی میں آپ کے کسی بھی نظریے یا عقیدے سے اختلاف کر سکتا ہوں مگر میرا اختلاف صرف اور صرف علمی نوعیت کا ہو گا۔ میں اپنے دیس کے ہر شہری کو جنس، رنگ، نسل، ثقافت، زبان، مسلک اور فرقے سے ماورا ہو کر اپنا سمجھتا ہوں اور یہ تعلق کسی بھی شخص کے دکھ میں شریک ہونے کے لیے کافی ہے۔
پارہ چنار واقعے کو تین روز بیت چکے، کئی لاشیں دفنائی جا چکیں اور درجنوں افراد اب بھی دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
پاکستان میں شیعہ برادری کو اس حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملہ ایسے بہت سے حملوں کا تسلسل ہے، جس میں ملک میں اقلیتوں کو نظریات کے فرق کی بنیاد پر قتل کیا گیا اور ریاست ایسے موقع پر کسی خاموش تماشائی سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دیتی۔ مگر میں کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟
کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا قتل عام، مسیحیوں کی عبادت گاہوں پر حملے، ہندوؤں کی بچیوں کو اغوا کر کے جبراﹰ تبدیلیء مذہب، احمدیوں کو تاک کر نشانہ بنانا اور یہاں تک کہ مزارات اور مساجد میں خون کی ہولی۔ میں کس کس واقعے کا نوحہ لکھوں؟ میں کس کس قتل کو ماتم کروں؟ عید کا دن ہے اور پارا چنار میں لوگ ماتم کر رہے ہیں۔ مائیں اپنے بیٹوں کی تصاویر دیکھ دیکھ کر ہلکان ہو رہی ہیں۔ بہنیں اپنے سروں پر خاک ڈال رہی ہیں اور ریاست ان متاثرہ افراد کے آنسو پونچھنے کی بجائے ان پر سانس کی راہیں تنگ کر رہی ہے۔
ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں کے چھاؤں میں کوئی بچہ سب سے زیادہ محفوظ ہوتا ہے مگر یہ کیسی ماں ہے کہ جس کے بچے رنگ، نسل، ثقافت، مذہب، مسلک اور فرقوں کی بنیاد پر کاٹے جا رہے ہیں اور وہ خاموش ہے۔ یہ کیسی بے حسی ہے کہ میڈیا تک بولنے سے عاری ہے؟ یہ کیسا خوف ہے کہ ان ماتم کدہ گھرانوں سے اظہار افسوس تک نہیں کیا جا سکتا؟ یہ کیسی عید ہے کہ جس میں کئی گھرانوں کے کئی چاند ہمیشہ کے لیے گرہن ہو چکے ہیں؟
چنار کے پیٹر کی چھاؤں میں بیٹھنے والے پارے (ٹکڑے)، پارہ چنار (چنار کے ٹکڑے) پارہ پارہ ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کا قصور اس کے علاوہ کیا ہے کہ انہیں فرقہ واریت کی آگ نے جھلسا دیا ہے۔
میری ریاست کب چنار بنے گی؟ اس کی چھاؤں کب ایک ایک پارے کے لیے ایک جیسی ہو گی؟ میں کب تک مذمت کے لیے لفظ تلاش کرتا رہوں۔