– زبیر حسن شیخ
تکیہ کلام کا چلن بول چال کی ہر ایک زبان میں مستعمل رہا ہے- انگریزی ہو یا اردو، کیا خاص اور کیا عام ، کیا زبان دشمناں اور کیا زبان یاراں، تکیہ کلام کی اپنی ایک خاصیت اور اہمیت رہی ہے، اور اپنی حشر سامانیاں بھی- تکیہ اور کلام کی ترکیب بھی عجیب و غریب واقع ہوئی ہے – اردو زبان میں یوں تو لفظ تکیہ کئی معنوں میں اخذ کیا جاتا ہے اور جس میں آرام، سہارا، آسرا اور بھروسہ کرنے سے لے کر سوتے وقت سر کے نیچے یا صوفوں پر کمر کے پیچھے کپاس سے بنے گاؤ تکیہ کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے – لیکن لفظ کلام کے ساتھ اسے جوڑ کر جو ترکیب نکالی گئی اس نے ہمیں مخمصہ میں ڈال دیا – لغت میں تکیہ کلام کے معنی عادتا الفاظ یا جملہ کا اپنی گفتگو میں بار بار استعمال کرنا ہے- چاہے انکے حقیقی معنی ہوں یا نہ ہوں- ویسے اردو شعرائے کرام نے اپنے کلام میں تخلص پر تکیہ کر خوب کام نکالا ہے – خیر، ہمارا دل بہت چاہا کہ میر و غالب اور حالی شبلی و سر سید کے تکیہ کلام پر تحقیق و تالیف کی جائے اور اسی طرح اردو ادب و قواعد سے اس ترکیب کی کنہ بھی ڈھونڈ نکالی جا ئے….. لیکن یہ سوچ کر ہم باز آگئے کہ ادبا و شعراء پر تحقیق و تالیف اور قواعد و لغت سے الفاظ کی کنہ جاننا تو احباب بزمقلم کا کمال فن ٹہرا – الغرض اپنے افکار و قلم پر تکیہ کر لیا اور جناب شیفتہ اور بقراط سے استفادہ کرنے کی ٹھان لی- ہم نے بقراط سے پوچھا تو پتا چلا کہ انگریزی لغت میں تکیہ کلام کا کوئی متبادل موجود نہیں– خود ساختہ لا یعنی الفاظ یا جملہ کو بار بار گفتگو میں دہرانے کے عمل کو انگریزی میں ذاتی آداب گفتگو سے موسوم کیا جاتا ہے، اور جسے اردو میں تکیہ کلام کہتے ہیں- دیگر زبانوں کا حال بھی انگریزی سے کچھ مختلف نہیں- بلکہ اہل ہندی تو خوشدلی سے اردو کی ایسی بے شمار تراکیب کا استعمال کرتے ہیں، اور اپنی باتوں میں اردو تکیہ کلام کابھی – ہندوستانی ٹی وی میڈیا تو انکا استعمال مال غنیمت سمجھ کر کرتا رہتا ہے- البتہ پتا نہیں پاکستانی ٹی وی میڈیا تکیہ کلام کی ادائیگی بھی صحیح طور سے کرسکتا ہے یا نہیں ، ک کی جگہ ق کا استعمال کر بیٹھے تو بتنگڑ بننا طے ہے-
تکیہ کلام کی حشر سامانیوں کی بات کریں تو اکثر تکیہ کلام کو بات کا بتنگڑ بناتے پایا گیا ہے – ہمارے ایک برطانوی دوست مائیک کا تکیہ کلام یاد آتا ہے کہ وہ بات بات پر “او مائی گاڈ” کہا کرتے تھے- چاہے حیرت زدہ ہوں یا غم زدہ یا پھر ملامت زدہ یا مسرت زدہ انکی گفتگو اوہ مائی گاڈ کے تکیہ کے بغیر آرام نہیں پاتی- اسی طرح امریکیوں کو اکثر تکیہ کلام میں “یو نو” کا استعمال کرتے دیکھا گیا – پھر وہ چاہے اہل علم سے مخاطب ہوں یا اہل جہل سے، ہر بات پر جیسے پوچھ رہے ہوں، سمجھ گئے یا نہیں؟ اب انہیں کون سمجھا ہے دنیا میں- مغرب میں سیاسی نابیناؤں نے “آئی سی ” کو اپنا تکیہ کلام بنا لیا تو عوام کی بینا ئی چلی گئی ، اور رہے اہل بر صغیر تو اغیار کے طرز تکلم پر جب تکیہ کیا تو اپنی ہی زبان پر ماتم کناں ہو ئے اور “ہائے” ” ہائے” کرتے رہ گئے – ہمارے پڑوسی جوشی صاحب جو بد قسمتی سے دہریہ تھے اور اب کارل مارکس کو پیارے ہو گئے ہیں، اپنے امریکی طرز تکلم کو عجیب و غریب تکیوں کا سہارا دیا کرتے تھے- ہر ہر جملے میں کئی بار “گاڈ ڈیم اٹ” کہا کرتے، جبکہ یہ بھی ایک طرح سے گاڈ کے نام کی گواہی دے کر یا قسم کھا کر کسی بات کو یا واقع کو برا بھلا کہنے کے مترادف ہے- ہمارے ایک شناسا کا تکیہ کلام اکثر انکی شامت کا باعث بنتا تھا – ہر ایک بات کی تمہید میں وہ کہتے کہ “وہ آپکے جو ہیں”- اور ایک بار اپنے چچا کی مار کھاتے بچے – چچا نے پوچھا شادی کے بعد آجکل کہاں رہتے ہیں آپ؟ تو کہا کہ وہ آپکی جو بیوی کے ساتھ ہی رہتے ہیں- اہل اردو کو اکثر اپنی گفتگو میں ” بھئی ” جو بھا ئی کا مخفف ہے، تکیہ کلام بناتے دیکھا گیا ہے ، اور جو اب اپنے اصل معنی کھو چکا ہے ، اس لئے کیا بیوی اور کیا خاوند ہر ایک اپنے کلام میں اس پر تکیہ کرتا ہے- بر صغیر میں مشرقی خواتین کو اکثر ہائے الله ، اوئی اللہ کو بطور تکیہ کلام کسی مخصوص رد عمل کے تحت استعمال کرتے پایا گیا ہے، اور بغیر وقفہ کے اگلے پچھلے جملوں سے جوڑ کر استعمال کرتے پایا گیا ہے، چاہے تعریف کررہی ہوں یا گالیاں دے رہی ہوں- اسی طرح ناخدائے غزل میر بھی اپنے کلام میں اکثر اللہ کے نام پر تکیہ کرتے دکھا ئی دیتے ہیں- اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اسکی،…. کہتے ہیں، الہی کہاں منہ چھپایا ہے تو نے …… اور یوں بھی کہتے ہیں کہ …. علم سب کو یہ ہے کہ سب تو ہے ….. پھر ہے اللہ کیسا نا معلوم …… ملتفت ہوتا نہیں ہے گاہ تو….کس قدر مغرور ہے اللہ تو …… اکثر اہل عرب کا تکیہ کلام “واللہِ ” ہوتا ہے اور وہ بات بے بات اسے دہراتے ہیں ،اور کیا سچ بات اور کیا جھوٹ ، ہر بات پر اللہ کو گواہ بناتے ہیں – بمبئی اور کراچی کے اکثر لوگوں کا ایک تکیہ کلام بہت مشہور ہے جو اپنے معنی کے لحاظ سے بد کلامی میں شمار ہوتا ہے، اور کبھی کبھی اجنبی مخاطب کو مشتعل بھی کردیتا ہے، بلکہ شرفاء اور ادباء کے یہاں گالی میں شمار ہوتا ہے- یہ مشہور تکیہ کلام ہے سالا- اسکی خاصیت یہ ہے کہ یہ جملے سے پہلے یا درمیان میں یا پھر آخر میں کہیں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے- یہ عبادتوں کو ذکر ہو یا رشتہ داروں کا آگے پیچھے سالا لگانا ضروری سمجھتے ہیں – توبہ ہے ..
الغرض ، بقراط سے سیاستدانوں کے تکیہ کلام کے بارے بات کی تو معلوم ہوا کہ ان میں اکثر کلام کے بجائے اعمال میں تکیہ کا استعمال کرتے ہیں- کہا، امریکی صدارتی امیدوار مسٹر ٹرمپ جو اب نا امید سے ہیں، جبکہ انکی چند دیرینہ سہلیاں اب بھی امید سے ہیں کہ مسٹر ٹرمپ صدر بن جائیں تو امریکی “کراؤن پرنس” کی ماؤں کی طویل فہرست میں انکا نام بھی شامل ہو- کہا، مسٹر ٹرمپ کا اپنے اعمال میں تکیوں کا استعمال کرنا کافی مشور ہوا ہے، جبکہ اپنے کلام میں وہ تکیہ تو دور چادر کا بھی استعمال نہیں کرتے کہ انکے عیب چھپ جائیں – بلکہ وہ تو اپنے عیوب کھول کھول کر بتانے پر تلے ہیں- کہا ، کئی امریکی خواتین نے انکے اعمال میں تکیوں کے جا بجا استعمال کا ذکر کیا ہے اور کھلے عام کیا ہے- اور جب انکی زوجہ محترمہ نے اسکا ذکر کھلے عام کیا تو مسٹر ٹرمپ کو پتا چلا کہ وہی پتے ہوا دے رہے ہیں جن پر تکیہ تھا – ویسے بھی امریکہ میں سب کچھ کھلے عام کیا جا تا ہے- چھپ چھپ کر کرنے کی وہاں سخت ممانعت ہے- کہا، صدر کلنٹن کا اپنے اعمال میں تکیوں کا استعمال کرنا بھی بہت مشور ہوا تھا، یہ اور بات کہ بعد میں وہی تکیہ انکے منہ پر مارا گیا- البتہ ہیلری صاحبہ بھی جو صدراتی امیدوار ہیں اور کافی پر امید ہیں، انکا اپنے ماضی میں غلط خارجہ پالیسیوں پر تکیہ کرنا ثابت آتا ہے، بلکہ برطانیہ کی تقلید میں اسرائیلی حکام کے ساتھ ملکر عربوں کے سرہانوں سے تکیہ غائب کر انکی نیندیں اڑانا بھی ثابت آتا ہے- کہا، خاندان بش نے بھی اپنے کلام اور اعمال پر تکیہ کیا تھا اور “نیو ورلڈ آرڈر” سے لے کر عربی تیل کے کنووں تک، جا بے جا اور ہر ہر بات پر تکیہ کیا ، لیکن پھر یہ ہوا کہ تاریخ نے انکے بدن سے چادر ہی گھسیٹ کر رکھ دی – شیفتہ نے بقراط سے کہا، جناب بات تکیہ کلام کی تھی اور آپ نے “تکیہ اعمال” کے نام پر ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا- کہا، حضور اچھا یاد دلایا، شوشہ چھوڑنے میں تکیہ کلام کی بلکل بھی ضرورت نہیں ہوتی، چاہے تو مودی راجہ سے پوچھ لیجیے- انکا “بھائیوں اور بہنوں” سے تقریر کا آغاز اور اختتام کرنا کافی مشہور ہوا ہے- ویسے بھی وہ کلام نہیں کرتے ہیں صرف تقریر کرتے ہیں، اور ایک کے بعد ایک شوشہ چھوڑتے ہیں- بلکہ کانگریسی ولی عہد کہتے ہیں کہ “خوب چھوڑتے ہیں” جبکہ وہ خود نظام ازدواج کو چھوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں- کہا ، راجہ جی اپنی خانگی زندگی میں تو علیحدگی پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں ، لیکن اپنی تقریر میں مسلم پرسنل لاء کی آڑ میں طلاق سے جان چھڑانا چاہتے ہیں – شیفتہ نے کہا، لیکن انکے لئے اردو قواعد و لغت میں تکیہ کلام کے ساتھ ساتھ ‘تکیہ تقریر’ کا اضافہ تو نہیں کیا جاسکتا نا- فرمایا، اردو ادب کوئی فرنگی آئین تو نہیں کہ اسے کسی ایک شخص یا کسی ادنی گروہ کی منشا پر جب چاہا بدل دیا اور یکساں “سول کوڈ” متعارف کرادیا ، مبسوط زبان و ادب میں یہ سب ضروری نہیں ہوتا ، اسی طرح دین فطرت بھی مبسوط نظام زندگی کا قائل ہے اور “لا اکرا فی الدین ” کا تقاضہ کرتا ہے ، بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ” کے احکامات کے علاوہ “لکم دینکم ولی دین” کی اہمیت بھی واضح کرتا ہے – فرمایا، راجہ جی کو علیحدگی اور طلاق میں فرق کرنا ہوگا، خانگی معاملات میں بھی اور ملکی سیاسی اور سماجی معاملات میں بھی- جو کوئی اپنی ازدواجی زندگی سے تکیہ کو خارج کر بیٹھا ہو وہ ملک کی ڈوبتی معیشت اور معاشرت کو بھلا کیسے تکیہ یا سہارا فراہم کر سکتا ہے – بقراط نے کہا بی جے پی نے طنزیہ مسلمانوں کا فتوی چرا کر اپنے کلام کا تکیہ بنا لیا ہے، نہ ہی انکی آئیڈیولوجی میں فتوی جیسی اہم اصطلاح موجود ہے اور نہ ہی دنیاوی قوانین میں- اب وہ بے جا ، بات پ بے بات لفظ فتوی کا استعمال کرتے ہیں ، کچھ دنوں بعد طلاق کا بھی کرنے لگ جائیں گے- چلیے دیکھتے ہیں یہ کب طلاق کو اپنا تکیہ کلام بناتے ہیں، طلاق تکیہ کلام بن جا ئے تو ایک نشست میں ہی ہوگی – پھر چاہے وہ تخت و تاج کو دیں یا سیاست کو یا ملک کو، یا اپنی خارجہ پالیسی کو …. دہشت گردی بھی اب انکا تکیہ کلام بن چکا ہے- اور اب تو یہ مسلمانان ہند کی خامشی کو بھی دہشت گردی کہتے ہیں، اور امن پسند ہندوستانی اہل فکر و نظر کے احتجاج کو بھی دہشت گردی سے موسوم کر اپنی گفتگو میں بطور تکیہ استعمال کرتے ہیں- کہا، کیا کریں کبھی خاموشی مسلمان کا تکیہ کلام ہوا کرتی تھی … اب وہ جو متحد ہو کر مسلم پرسنل لاء کو اپنا تکیہ کلام بیٹھے ہیں تو حکومت کی نیند اڑ گئی ہے – اور آر ایس ایس کا “مسلم فوبیا” کوئی نئی بات نہیں بلکہ برسوں پرانا ہے- تین طلاق اور چار شادی کی رعایت کہہ لیں یا روایات، مسلمانوں سے موسوم کی گئیں ہیں لیکن فی الحقیقت ان جائز اعمال کا ناجائز فائدہ اغیار کو ہی اٹھاتے دیکھا گیا ہے- بس علیحدگی کو وہ طلاق نہیں سمجھتے- ایک سے زاید شادی کو ہوس سمجھ کر غیر قانونی قرار دیتے ہیں لیکن مسلسل حرام کاری کو ضرورت سمجھ کر قانونی قرار دیتے ہیں- کہا ، پاکستانی شاہوں کی بات کریں تو وہ دنیا پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں اور آخرت سے منہ موڑے ہوئے ہیں، کچھ یہی حال بنگلہ دیش کی رانی کا ہے – اور رہے مغرب زدہ اہل عرب تو انکا تکیہ کلام اب “لا امریکی ” ہوا ہے جو کبھی “لا مشکلا” ہوا کرتا تھا – جبکہ اہل ایران پچھلے چالیس برسوں سے تقیہ کر اہل مغرب کی سازش کا شکار ہو ئے ہیں، اور اب ایک نئے تکیہ کلام کی تلاش میں ہے- جدید نسل کی بات کریں تو اس نے اپنے کلام میں بے شمار تکیے اخذ کر لئے ہیں، جن میں “وہاٹس اپ” ،” کول ” گوگل ” کے علاوہ چند انگریزی گالیاں بھی ہیں جو کلام میں تکیہ کا کردار تو کیا ادا کرتی بلکہ ایک نئی اصطلاح کا موجب بن رہی ہیں –