
آج ٹیم جیتے یا ہارے سچ پوچھئے تو مجھے اس سے کوئی گلہ نہیں ہوگا۔ورلڈ کپ سے ٹیم سے کوئی توقع نہیں تھی۔دو بڑی ٹیموں کے دورہ کینسل کرنے اور منیجمنٹ کی اہم مواقع پر تبدیلی نے اگر کوئی اُمید تھی تو اسے بھی ختم کر دیا۔مگر ورلڈ کپ کا سارا سفر اک سراب اور خواب کی ماند رہا ہے۔سب سے پہلے بھارت سے یکطرفہ مقابلے سے جیت نے 29 سال کے دکھ اذیت، آنسو، زلت اور تکلیف اور کرب کا مداوا کر دیا۔اُس کے بعد جیت کا تسلسل یوں بنا کہ ٹیم نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔آفریدی کی دو کرشماتی بالز ہوں یا عماد وسیم کی کفایتی بولنگ ہو، آصف علی کی ڈیتھ اوورز میں ہٹنگ ہو یا رن مشین حارث رؤف کی ورسٹائل باؤلنگ ہو سب کچھ پاکستانی کرکٹ کے عمومی مزاج سے ہٹ کر لگا۔شعیب نے اہم مواقع پر عمر کے تفادت کے باوجود سلیکشن ثابت کی تو بابر اور رضوان نے کرکٹ کو وہ اعتماد ،تسلسل ، کامنس، آرٹ اور کلاس دی جس سے پاکستانی کرکٹ عرصے سے محروم تھی۔کپتانی میں میچورنس نظر آئی تو اندرونی اختلافات اور اندر کی خبریں لیک ہونے کا باب بھی بند ہوا۔فٹنس لیول بہترین لگا اور گرائونڈ میں کپتان کے فیصلوں کے پیچھے مشاورت، پلاننگ، فہم ،سوچ و بچار اور كرکٹنگ سینس نظر آیا۔بين اقوامی کرکٹ سے محروم اور عرصے سے مسائل میں گھری قومِ کی واحد تفریح کرکٹ رہ گئی تھی۔جیت کے ساتھ جینے کی ترنگ اور ہار کے ساتھ دکھ بھری شب کی سیاہی اور بڑھ جاتی لیکن یہ واحد ٹورنمنٹ ہوگا جس میں ٹیم سے کوئی گلہ نہیں ہو گا ۔اگر ہم جیت پر کاپی رائٹس کا دعویٰ جتاتے ہیں تو شکست بھی کھلے دل سے قبول کرنا سیکھنا ہوگا۔ٹیم جیت یا ہار دونوں صورتوں میں ہماری توصیف ،محبت ،بڑے پن اور تالیوں کی مستحق ہے۔۔۔
Well played
عمران محمد کی وال سے